کیلا سارا سال پاکستان میں دستیاب ہوتا ہے۔ کیلے کے درخت کی لمبائی آٹھ سے اٹھارہ فٹ تک ہوتی ہے لیکن اس میں لکڑی بالکل نہیں ہوتی۔ کیلے کے درخت کے تنے پر بکل کے پرت ہوتے ہیں۔ ان پرتوں سے ہی پتے نکلتے ہیں۔ اس درخت میں پتوں کے علاوہ کوئی شاخ نہیں ہوتی۔
کیلا غذائیت سے بھرپور ہوتا ہے۔ اس میںکیلشیم‘ میگنیزئیم‘ حیاتین الف (وٹامن اے)‘ حیاتین ب (وٹامن بی)‘ حیاتین ج (وٹامن اے) حیاتین ب (وٹامن بی) حیاتین ج (وٹامن سی) بکثرت موجود ہوتے ہیں۔
حیاتین ج کی موجودگی کے باعث یہ دانتوں کے امراض کے لیے بے حد مفید ہے۔ کیلے میں پروٹین اور چربی کم مقدار میں ہوتی ہے۔ لیکن نشاستہ (کاربوہائیڈریٹ) کافی مقدار میں ہوتا ہے جس کی وجہ سے یہ جسم کو توانائی فراہم کرتا ہے۔
کیلوں کی کئی اقسام ہیں۔ بعض کیلوں میں بیج بالکل نہیں ہوتے اور بعض میں بیج بہت زیادہ مقدار میں ہوتے ہیں۔ بعض اقسام کے کیلے اگرچہ کافی بڑے ہوتے ہیں۔ لیکن ان کا ذائقہ خوشگوار نہیں ہوتا بلکہ پھیکے پھیکے ہوتے ہیں جبکہ بعض اقسام کے کیلے بہت خوشبودار اور خوش ذائقہ ہوتے ہیں۔
طبی اعتبار سے کیلا گوناگوں خوبیوںکا حامل ہے۔ یہ کئی امراض میں مفید ہے۔ خشک کیلے کا سفوف یعنی آٹا دستوں اور پیچش کیلئے بہترین غذائی دوا ہے۔ دست‘ پیچش اور سنگرہنی کی شکایت میں کیلا دہی کے ساتھ ملا کر کھانے سے فائدہ ہوتا ہے اگر دہی میں تھوڑی سی زعفران بھی شامل کردی جائے تو بہت تیزی سے فائدہ ہوتا ہے۔
بعض لوگ جسمانی اعتبار سے بہت کمزور ہوتے ہیں اور ان کا جسم دبلا پتلا ہوتا ہے اگر ایسے افراد کچھ عرصے تک مسلسل دودھ میں کیلا پھینٹ کر صبح و شام پئیں تو رفتہ رفتہ ان کا بدن بھاری ہونے لگتا ہے۔ اس غذائی نسخے میں یہ خوبی ہے کہ اس کے استعمال سے جسم غیرضروری طور پر موٹاپے کا شکار نہیں ہوتا‘ کیونکہ کیلے میںچربی بہت کم ہوتی ہے۔
کمزور بچوں کیلئے کیلا بہترین غذا ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین دوا بھی ہے۔ جن بچوں کو شیرخوارگی کے دور سے کیلا کھلایا جاتا ہے وہ بہترین صحت کے مالک اور خوبصورت موٹے تازے ہوجاتے ہیں۔ کمزور اور لاغر بچوں کو اگر روزانہ دوگلاس دودھ کے ہمراہ دو کیلے کھلائے جائیں تو ان کی لاغری ختم ہوجاتی ہے۔ بچوں کے علاوہ کمزور ہاضمے والے اشخاص کیلئے بھی کیلا بہت مفید ہے۔کیلے کے درخت کے تمام حصے دوا کے طور پر استعمال کیے جاتے ہیں۔ مثلاً کیلے کی جڑ‘ پھلیاں‘ پتے اور پھل وغیرہ…خشک کھانسی اور بلغمی کھانسی میں کیلے کے خشک پتے کو جلا کر تھوڑا سانمک شامل کرکے چٹانے سے کھانسی کو فائدہ ہوتا ہے۔ کیلے کی پختہ پھلی کھانے سے عورتوںکا مرض سیلان الرحم (لیکوریا) ختم ہوجاتا ہے۔ نکسیر کی شکایت میں کیلے کے تنے کا رس سنگھانے سے فائدہ ہوتا ہے۔ یہ رس پلانے سے پیشاب جل کر آنے کی شکایت ختم ہوجاتی ہے۔
چہرے کی جھائیاں اور داغ دھبے ختم کرنے کیلئے کیلے کے گودے کے ساتھ خربوزے کے بیج پیس کر چہرے پرلگائے جاتے ہیں۔ اس آمیزے کو چند دن تک لگانے سے چہرے کا رنگ نکھر جاتا ہے اور داغ دھبے ختم ہوجاتے ہیں۔
قدیم طبی کتب کے مطابق سانپ کیلے کے درخت کے قریب ہرگز نہیں آتا ہے بجز ایک خاص قسم کے سانپ کے جو سبز رنگ کا ہوتا ہے اورمخصوص علاقوں میں ہی پایا جاتا ہے۔ کیلے کے درخت خواہ کتنے ہی گھنے جھنڈ کی صورت میں ہوں ان میں سانپ نہیں آتا ہے۔ اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ کیلے کے درخت میں سانپ ہلاک کرنے والا کوئی جز پایا جاتا ہے اگر کسی شخص کو سانپ کاٹ لے تو فوراً کیلے کے درخت کے تنے سے تازہ رس نکالیں اور اس رس کے دو پیالے پلادیں۔ سانپ کے کاٹے کیلئے یہ مجرب علاج ہے۔ اگرچہ یہ رس بدمزہ ہوتا ہے لیکن اس کے پیتے ہی زہرکا اثرتیزی سے زائل ہونے لگتا ہے۔ یہ رس پیشاب کی جلن بھی ختم کرتا ہے۔
جن بچوں کی نشوونما سست ہو اور جسم کمزور ہو انہیں کیلے کو مکئی کے بھٹے کی طرح آگ پر سینک کر بھون کر کھلانے سے وہ موٹے تازے ہوجاتے ہیں۔ کیلا دودھ میں ملا کر یا گھی میں فرائی کرکے کھانے سے جسم میں توانائی پیدا ہوتی ہے اور کمزوری ختم ہوجاتی ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں